بجھی ہے آتشِ رنگِ بہار، آہستہ آہستہ
گِرے ہیں شعلۂ گل سے شرار، آہستہ آہستہ
وہ اک قطرہ کہ برگِ دل پہ شبنم سا لرزتا تھا
ہوا ہے بحر ناپیدا کنار، آہستہ آہستہ
کبھی شورِ قیامت گوشِ انساں تک بھی پہنچے گا
اڑا ہے رفتہ رفتہ رنگ تصویرِ محبت کا
ہوئی ہے رسمِ الفت بے وقار، آہستہ آہستہ
سرابِ آرزو میں پھر کوئی منظر بھی چمکے گا
اٹھے گی دشت سے موجِ غبار، آہستہ آہستہ
بہت دن تک سلاسل کی صدا آئی ہے زنداں سے
ملا ہے بے قراروں کو قرار، آہستہ آہستہ
وہ سب اربابِ جذب و شوق جن پر ناز تھا ہم کو
ہوئے ہیں ہوشمندی کے شکار، آہستہ آہستہ
کبھی ملحوظ ہم کو بھی سخن میں ربطِ معنی تھا
ہوا ہے زہرِ غم آشفتہ کار، آہستہ آہستہ
کہیں یارو تمہیں پھر گہری یاسیت نہ چھو جاۓ
رہو راہِ طلب میں محوِ کار، آہستہ آہستہ
اسلم انصاری
No comments:
Post a Comment