کون تھا وہ خواب کے ملبوس میں لپٹا ہوا
رات کے گنبد سے ٹکرا کر پلٹ آئی صدا
میں کہ تھا بکھرا ہوا ساحل کی پیلی ریت پر
اور دریا میں تھا نیلا آسماں ڈوبا ہوا
اپنی جانب کھینچنا ہی تھا گزرتے وقت کو
سوچ کی سوکھی ہوئی شاخوں سے مرجھائے ہوئے
ٹوٹ کر گرتے ہوئے لفظوں کو میں چنتا رہا
جب بھی خود کی کھوج میں نکلا ہوں اپنے جسم سے
کالی تنہائ کے جنگل سے گزرنا ہی پڑا
پھیلتا جاتا ہے ٹھنڈی چاندنی کے ساتھ ساتھ
شعلہ شعلہ لذتوں کی تشنگی کا دائرہ
عادل منصوری
No comments:
Post a Comment