Saturday, 12 November 2016

کون تھا وہ خواب کے ملبوس میں لپٹا ہوا

کون تھا وہ خواب کے ملبوس میں لپٹا ہوا
رات کے گنبد سے ٹکرا کر پلٹ آئی صدا
میں کہ تھا بکھرا ہوا ساحل کی پیلی ریت پر
اور دریا میں تھا نیلا آسماں ڈوبا ہوا
اپنی جانب کھینچنا ہی تھا گزرتے وقت کو
ٹوٹتے لمحوں کے سایوں کو میں پھیلاتا رہا
سوچ کی سوکھی ہوئی شاخوں سے مرجھائے ہوئے
ٹوٹ کر گرتے ہوئے لفظوں کو میں چنتا رہا
جب بھی خود کی کھوج میں نکلا ہوں اپنے جسم سے
کالی تنہائ کے جنگل سے گزرنا ہی پڑا
پھیلتا جاتا ہے ٹھنڈی چاندنی کے ساتھ ساتھ
شعلہ شعلہ لذتوں کی تشنگی کا دائرہ

عادل منصوری

No comments:

Post a Comment