جلنے لگے خلا میں ہواؤں کے نقشِ پا
سورج کا ہاتھ شام کی گردن پہ جا پڑا
چھت پر پگھل کے جم گئی خوابوں کی چاندنی
کمرے کا درد ہانپتے سایوں کو کھا گیا
بستر میں ایک چاند تراشا تھا لمس نے
ہر آنکھ میں تھی ٹوٹتے لمحوں کی تشنگی
ہر جسم پر تھا وقت کا سایہ پڑا ہوا
دیکھا تھا سب نے ڈوبنے والے کو دور دور
پانی کی انگلیوں نے کنارے کو چھو لیا
آۓ گی رات منہ پہ سیاہی ملے ہوئے
رکھ دے گا دن بھی ہاتھ میں کاغذ پھٹا ہوا
عادل منصوری
No comments:
Post a Comment