ابلاغ کے بدن میں تجسس کا سلسلہ
ٹوٹا ہے چشمِ خواب میں حیرت کا آئینہ
جو آسمان بن کے مسلط سروں پہ تھا
کس نے اسے زمین کے اندر دھنسا دیا
بکھری ہیں پیلی ریت پہ سورج کی ہڈیاں
احرام ٹوٹتے ہیں کہاں سنگِ وقت کے
صحرا کی تشنگی میں ابوالہول ہنس پڑا
انگلی سے اسکے جسم پہ لکھا اسی کا نام
پھر بتی بند کر کے اسے ڈھونڈتا رہا
شریانیں کھنچ کے ٹوٹ نہ جائیں تناؤ سے
مٹی پہ کھل نہ جائے یہ دروازہ خون کا
موجیں تھیں شعلگی کے سمندر میں تند و تیز
میں رات بھر ابھرتا رہا ڈوبتا رہا
عادل منصوری
No comments:
Post a Comment