Sunday, 13 November 2016

دیوار کھڑی ہو گی کہیں خار ملیں گے

دیوار کھڑی ہو گی کہیں خار ملیں گے
منزل کے سبھی راستے دشوار ملیں گے
انسان کو جو اپنا خریدار بنا لیں
اب ایسے کھلونے سر بازار ملیں گے
طوفاں کے تھپیڑے ہمیں گم کر نہیں سکتے
ڈوبیں گے جو اِس پار تو اُس پار ملیں گے
شرمائے گا مجھ سے میرے حالات کا سورج
جب سایہ فگن راہ میں اشجار ملیں گے
فنکارِ غزل مٹ نہیں سکتا کبھی آفاقؔ
ہر دور میں غالب کے طرفدار ملیں گے

زاہد آفاق

No comments:

Post a Comment