Sunday, 13 November 2016

غیرت گر اسلاف کا پندار کہاں ہے

غیرت گرِ اسلاف کا پِندار کہاں ہے
سر ہے تِرے شانوں پہ تو دستار کہاں ہے 
پسپائی ہوئی تیری، خود اپنی ہی حدوں میں
تجھ میں وہ جو تھا برسرِ پیکار، کہاں ہے 
اب سنگ اٹھائے ہوئے پھرتے سبھی عکس
آئینہ تو ہے، آئینہ بردار کہاں ہے 
منصور نہیں، وجدِ اناالحق تھا سرِ دار
انسان میں یہ قدرتِ اظہار کہاں ہے 
یہ کیسی مسافت ہے جو درپیش ہے ہم کو
منزِل ہے کہاں، قافلہ سالار کہاں ہے 
ہر جنس، نمائش کی طلب گار ہے لیکن
بازار میں ہر شخص خریدار کہاں ہے 
اس شہر میں، بس ایک ٹھکانہ تھا ہمارا
اس دھوپ میں وہ سایۂ دیوار کہاں ہے
آنکھوں نے مجھے کر دیا گمراہ، وگرنہ
دل تیری محبت کا گنہ گار کہاں ہے 
جس نے کئی کردار نِبھانے تھے مِرے ساتھ
اب میری کہانی کا وہ فن کار کہاں ہے 
وہ لوگ تو فرعون کے محکوم تھے آفاقؔ 
اب اہلِ قلم، حاشیہ بردار کہاں ہے

زاہد آفاق

No comments:

Post a Comment