آگ میں جلتا ہوا گھر دیکھ کر
چپ ہوں بربادی کا منظر دیکھ کر
روز چلاتی ہیں مجھ پر سلوٹیں
دنگ رہ جاتا ہوں بستر دیکھ کر
آئینے آپس میں ٹکرانے لگے
وقت کی رفتار کو رکنا پڑا
ڈوبتے سورج کے تیور دیکھ کر
اس لیے دنیا سے شرمندہ نہیں
پاؤں پھیلائے تھے چادر دیکھ کر
سب سخنوَر ہوں جہاں شعلہ بیاں
بات کرنا اپنے اندر دیکھ کر
تیرے صحرا میں سرابِ آگہی
لوٹ آیا ہوں سمندر دیکھ کر
شہر کے حالات سے واقف ہوا
ہر طرف جلتے ہوئے گھر دیکھ کر
زاہد آفاق
No comments:
Post a Comment