Sunday, 13 November 2016

آگ میں جلتا ہوا گھر دیکھ کر

آگ میں جلتا ہوا گھر دیکھ کر
چپ ہوں بربادی کا منظر دیکھ کر
روز چلاتی ہیں مجھ پر سلوٹیں
دنگ رہ جاتا ہوں بستر دیکھ کر
آئینے آپس میں ٹکرانے لگے
اک تِرے ہاتھوں میں پتھر دیکھ کر
وقت کی رفتار کو رکنا پڑا
ڈوبتے سورج کے تیور دیکھ کر
اس لیے دنیا سے شرمندہ نہیں
پاؤں پھیلائے تھے چادر دیکھ کر
سب سخنوَر ہوں جہاں شعلہ بیاں
بات کرنا اپنے اندر دیکھ کر
تیرے صحرا میں سرابِ آگہی
لوٹ آیا ہوں سمندر دیکھ کر
شہر کے حالات سے واقف ہوا
ہر طرف جلتے ہوئے گھر دیکھ کر

زاہد آفاق

No comments:

Post a Comment