ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئینہ خانے میرے
وقت کی زد میں ہیں یادوں کے خزانے میرے
زندہ رہنے کی ہو نیت تو شکایت کیسی
میرے لب پر جو گِلے ہیں وہ بہانے میرے
رخشِ حالات کی باگیں تو مِرے ہاتھ میں تھیں
میرے ہر درد کو اس نے ابدیت دے دی
یعنی کیا کچھ نہ دیا مجھ کو خدا نے میرے
میری آنکھوں میں چراغاں سا ہے مستقبل کا
اور ماضی کا ہیولٰی ہے سرھانے میرے
تُو نے احسان کیا تھا تو جتایا کیوں تھا
اس قدر بوجھ کے لائق نہیں شانے میرے
راستہ دیکھتے رہنے کی بھی لذت ہے عجیب
زندگی کے سبھی لمحات سہانے میرے
جو بھی چہرہ نظر آیا تِرا چہرہ نکلا
تُو بصارت ہے مِری، یار پرانے میرے
سوچتا ہوں مِری مٹی کہاں اڑتی ہو گی
اِک صدی بعد جب آئیں گے زمانے میرے
صرف اِک حسرتِ اظہار کے پرتَو ہیں ندیمؔ
میری غزلیں ہوں کہ نظمیں کہ فسانے میرے
احمد ندیم قاسمی
No comments:
Post a Comment