Sunday, 13 November 2016

ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئینہ خانے میرے

ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئینہ خانے میرے
وقت کی زد میں ہیں یادوں کے خزانے میرے
زندہ رہنے کی ہو نیت تو شکایت کیسی
میرے لب پر جو گِلے ہیں وہ بہانے میرے
رخشِ حالات کی باگیں تو مِرے ہاتھ میں تھیں
صرف میں نے کبھی احکام نہ مانے میرے
میرے ہر درد کو اس نے ابدیت دے دی
یعنی کیا کچھ نہ دیا مجھ کو خدا نے میرے
میری آنکھوں میں چراغاں سا ہے مستقبل کا
اور ماضی کا ہیولٰی ہے سرھانے میرے
تُو نے احسان کیا تھا تو جتایا کیوں تھا
اس قدر بوجھ کے لائق نہیں شانے میرے
راستہ دیکھتے رہنے کی بھی لذت ہے عجیب
زندگی کے سبھی لمحات سہانے میرے
جو بھی چہرہ نظر آیا تِرا چہرہ نکلا
تُو بصارت ہے مِری، یار پرانے میرے
سوچتا ہوں مِری مٹی کہاں اڑتی ہو گی
اِک صدی بعد جب آئیں گے زمانے میرے
صرف اِک حسرتِ اظہار کے پرتَو ہیں ندیمؔ
میری غزلیں ہوں کہ نظمیں کہ فسانے میرے

احمد ندیم قاسمی

No comments:

Post a Comment