Sunday, 13 November 2016

الفت نے تیری ہم کو تو رکھا نہ کہیں کا

الفت نے تیری ہم کو تو رکھا نہ کہیں کا
دریا کا نہ جنگل کا سما کا نہ زمیں کا
اقلیمِ معانی میں عمل ہو گیا میرا
دنیا میں بھروسہ تھا کسے تاج و نگیں کا
تقدیر نے کیا قطب فلک مجھ کو بنایا
محتاج میرا پاؤں رہا خانۂ زیں کا
اک بوریے کے تخت پر اوقات بسر کی
زاہد بھی مقلد رہا سجادہ نشیں کا
اخترؔ قلمِ فکر کے بھی اشک ہیں جاری
کیا حال لکھوں اپنے دلِ زار و حزیں کا

واجد علی شاہ اختر

No comments:

Post a Comment