آسماں تک ملی زمیں آباد
ہو گئی تھی کہاں جبیں آباد
چھٹ رہا تھا غبارِ دشتِ گماں
آ رہا تھا نظر یقیں آباد
سانس لیتا کہ میں سفر کرتا
آ بسا تھا وہ میری آنکھوں میں
آنسوؤں سے تھی آستیں آباد
میری آغوش میں دلِ برباد
تیرے پہلو میں ہم نشیں آباد
یوں بھی ہوتا ہے عشق میں شاید
میں کہیں خاک، تُو کہیں آباد
جانِ محفل تجھے خدا رکھے
مطمئن شاد، خوش نشیں آباد
لیاقت علی عاصم
No comments:
Post a Comment