گر پڑا ہوں گرا پڑا نہ سمجھ
اے ہوا مجھ کو نقشِ پا نہ سمجھ
راکھ سے ہاتھ جل نہ جاۓ کہیں
مجھ کو اتنا بجھا ہوا نہ سمجھ
میری خلوت میں اعتکاف نہ کر
یہ بھی میرے بدن کا حصہ ہے
میرے سائے کو دوسرا نہ سمجھ
اور بھٹکائیں گی تجھے آنکھیں
نیند کو خواب کا پتہ نہ سمجھ
عشق میں مشورہ نہیں چلتا
راہ چلتوں سے راستہ نہ سمجھ
میں سمجھتا ہوں تیری مجبوری
یار تو خود کو بے وفا نہ سمجھ
لیاقت علی عاصم
No comments:
Post a Comment