Saturday, 12 November 2016

گر پڑا ہوں گرا پڑا نہ سمجھ

گر پڑا ہوں گرا پڑا نہ سمجھ
اے ہوا مجھ کو نقشِ پا نہ سمجھ
راکھ سے ہاتھ جل نہ جاۓ کہیں
مجھ کو اتنا بجھا ہوا نہ سمجھ
میری خلوت میں اعتکاف نہ کر
آدمی ہوں مجھے خدا نہ سمجھ
یہ بھی میرے بدن کا حصہ ہے
میرے سائے کو دوسرا نہ سمجھ
اور بھٹکائیں گی تجھے آنکھیں
نیند کو خواب کا پتہ نہ سمجھ
عشق میں مشورہ نہیں چلتا
راہ چلتوں سے راستہ نہ سمجھ
میں سمجھتا ہوں تیری مجبوری
یار تو خود کو بے وفا نہ سمجھ

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment