بہت نازک طبیعت ہو گئی ہے
کسی سے کیا محبت ہو گئی ہے
نہیں ہوتی کہیں صَرفِ تماشا
نظر تیری امانت ہو گئی ہے
کہاں اب سلسلے دار و رسن کے
غمِ دوراں کی تلخی بھی جنوں میں
تِرے رخ کی ملاحت ہو گئی ہے
خبر کر دو اسیرانِ فلک کو
مِری دنیا بھی جنت ہو گئی ہے
قابل اجمیری
No comments:
Post a Comment