ابلتی ہانڈیاں
اور اتنی ساری
سبھی نے زندگی چولہے پہ رکھی ہے
نہ پکتی ہے نہ گلتی ہے
مگر یہ زندگی ہے
بنا ان کی گِٹک توڑے
خمیرے خواب جن کی بھاپ اڑتی ہے
سبھی پہ چھپ کچھ اپنی ہے
مگر ہر اک ہانڈی گڑگڑاتی ہے
ابلتی ہانڈیاں
اور اتنی ساری
یہ دانشور سبھی مل کر بِلوتے ہیں سمندر
اور نتھارا کرتے ہیں امرت
مگر تِڑکی ہوئی کُمبھی میں
کچھ رکتا نہیں ہے
جو بھرتے ہیں
وہ بہہ جاتا ہے پانی میں
ابلتی ہانڈیاں
اور اتنی ساری
گلزار
No comments:
Post a Comment