Monday, 14 November 2016

ابلتی ہانڈیاں اور اتنی ساری

ابلتی ہانڈیاں
اور اتنی ساری
سبھی نے زندگی چولہے پہ رکھی ہے 
نہ پکتی ہے نہ گلتی ہے
مگر یہ زندگی ہے
امیدیں ڈال رکھی ہیں بِنا چھیلے 
بنا ان کی گِٹک توڑے
خمیرے خواب جن کی بھاپ اڑتی ہے
سبھی پہ چھپ کچھ اپنی ہے
مگر ہر اک ہانڈی گڑگڑاتی ہے
ابلتی ہانڈیاں
اور اتنی ساری
یہ دانشور سبھی مل کر بِلوتے ہیں سمندر
اور نتھارا کرتے ہیں امرت
مگر تِڑکی ہوئی کُمبھی میں 
کچھ رکتا نہیں  ہے
جو بھرتے ہیں
وہ بہہ جاتا ہے پانی میں
ابلتی ہانڈیاں
اور اتنی ساری

گلزار

No comments:

Post a Comment