تم کیفیت نہ ڈھونڈو میرے دل و جگر میں
نظروں سے پوچھ لو نا کیا ہے مِری نظر میں
کیا ہیں نئی ادائیں اس چشمِ فتنہ گر میں
رعنائیاں ہیں لاکھوں خود عشق کی نظر میں
دو اشک میں گِرا کر خاموش ہو گیا ہوں
ان کا کرم تو دیکھو ان کی عطا تو دیکھو
مجھ میں سما گئے ہیں آ کر مِری نظر میں
ہم نے سکون کھویا، ہم نے سکون پایا
سو انقلاب آئے اک جنبشِ نظر میں
اللہ، میرے دل میں ہلچل سی مچ رہی ہے
یہ کیا لکھا ہوا ہے روئے پیامبر میں
میری ہی طرح اس کو مجبورِ قلت سمجھو
جو بھی کہ بیٹھ جائے گھبرا کے رہگزر میں
تاروں کو ہے شکایت، ہے ماہ کو بھی شکوہ
شب کا نہ ذکر آیا افسانۂ سحر میں
تم خود مجھے بتا دو اب اس سے کیا میں پوچھوں
تم تو نہ جانے کیا ہو بہزادؔ کی نظر میں
بہزاد لکھنوی
No comments:
Post a Comment