Tuesday, 15 November 2016

آپ کا جب مجھے خیال آیا

آپ کا جب مجھے خیال آیا
دل کی ہر آرزو کو حال آیا
کتنا نازک تھا دل کا آئینہ
ٹھیس لگتے ہی ہاۓ بال آیا
رخ پہ کیوں کھیلنے لگی شوخی
دل میں کوئی حسین خیال آیا
اٹھیں تعظیم کو مِری نظریں
جب کوئی صاحبِ جمال آیا
ہر تمنا ہے کچھ پریشاں سی
آپ کو ظلم کا خیال آیا
جوشِ دستِ کرم بڑھا ان کا
جب بھی لب پر کوئی سوال آیا
ہچکیاں آ رہی ہیں اے بہزادؔ
ان کو شاید مِرا خیال آیا

بہزاد لکھنوی

No comments:

Post a Comment