آپ کا جب مجھے خیال آیا
دل کی ہر آرزو کو حال آیا
کتنا نازک تھا دل کا آئینہ
ٹھیس لگتے ہی ہاۓ بال آیا
رخ پہ کیوں کھیلنے لگی شوخی
اٹھیں تعظیم کو مِری نظریں
جب کوئی صاحبِ جمال آیا
ہر تمنا ہے کچھ پریشاں سی
آپ کو ظلم کا خیال آیا
جوشِ دستِ کرم بڑھا ان کا
جب بھی لب پر کوئی سوال آیا
ہچکیاں آ رہی ہیں اے بہزادؔ
ان کو شاید مِرا خیال آیا
بہزاد لکھنوی
No comments:
Post a Comment