Monday, 14 November 2016

پتھروں کا نگر ہے بچا آئینہ

پتھروں کا نگر ہے بچا آئینہ 
کر رہا ہے یہی التجا آئینہ
دیکھ کر لوگ تجھ کو سنورنے لگیں
اپنے کردار کو تو بنا آئینہ
گھر کے آئینے کی قدر گھٹ جائے گی 
لایا بازار سے اگر نیا آئینہ
بھید چہرے کے کھل جائیں گے دیکھنا 
سامنے جب تیرے آئے گا آئینہ
لاکھ چہرے کو اپنے چھپا لے مگر
جانتا ہے تیری ہر ادا آئینہ
ہر طرف بے ضمیروں کا بازار ہے
تو کسی کو وہاں مت دکھا آئینہ
آئینہ تجھ سے کہتا ہے اعجازؔ یہ
پہلے خود دیکھ لے پھر دکھا آئینہ

قمر اعجاز

No comments:

Post a Comment