پتھروں کا نگر ہے بچا آئینہ
کر رہا ہے یہی التجا آئینہ
دیکھ کر لوگ تجھ کو سنورنے لگیں
اپنے کردار کو تو بنا آئینہ
گھر کے آئینے کی قدر گھٹ جائے گی
بھید چہرے کے کھل جائیں گے دیکھنا
سامنے جب تیرے آئے گا آئینہ
لاکھ چہرے کو اپنے چھپا لے مگر
جانتا ہے تیری ہر ادا آئینہ
ہر طرف بے ضمیروں کا بازار ہے
تو کسی کو وہاں مت دکھا آئینہ
آئینہ تجھ سے کہتا ہے اعجازؔ یہ
پہلے خود دیکھ لے پھر دکھا آئینہ
قمر اعجاز
No comments:
Post a Comment