Sunday, 13 November 2016

وہ کامیاب ہوا تھا جسے چھپانے میں

وہ کامیاب ہوا تھا جسے چھپانے میں
وہ درد اب اسے مصروف ہے ستانے میں
شکستِ خواب اسے مضطرب کرے ہے پھر
پڑا ہوا تھا جو مدت سے سرد خانے میں
محبتوں کا وہ رشتہ پَل میں ٹوٹ گیا
تمام عمر لگی تھی جسے کمانے میں
میں خالی ہاتھ ہی لوٹونگا جب بھی لوٹونگا
لگا نہ کچھ بھی مِرے ہاتھ آنے جانے میں
میں اس کے واسطے شطرنج کا پیادہ تھا
گنوایا میں نے اسے کھیلنے کھلانے میں
شروع سے ہے ابھی تک مِری حیات امین
تمام دنیا پڑی ہے مِرے خزانے میں
میں دیر تک اسے کرتا ہوں مضطرب ہر دن
مزا بہت سا ہے لیکن اسے ستانے میں

احمد سوز

No comments:

Post a Comment