وہ کامیاب ہوا تھا جسے چھپانے میں
وہ درد اب اسے مصروف ہے ستانے میں
شکستِ خواب اسے مضطرب کرے ہے پھر
پڑا ہوا تھا جو مدت سے سرد خانے میں
محبتوں کا وہ رشتہ پَل میں ٹوٹ گیا
میں خالی ہاتھ ہی لوٹونگا جب بھی لوٹونگا
لگا نہ کچھ بھی مِرے ہاتھ آنے جانے میں
میں اس کے واسطے شطرنج کا پیادہ تھا
گنوایا میں نے اسے کھیلنے کھلانے میں
شروع سے ہے ابھی تک مِری حیات امین
تمام دنیا پڑی ہے مِرے خزانے میں
میں دیر تک اسے کرتا ہوں مضطرب ہر دن
مزا بہت سا ہے لیکن اسے ستانے میں
احمد سوز
No comments:
Post a Comment