اس شہرِ صد آشوب میں اتری ہے قضا دیکھ
فرعون بنے بیٹھے ہیں مسند کے خدا دیکھ
بیٹھا ہے ہما رہزن و غدار کے سر پر
معصوم پرندے کی ہے معصوم ادا دیکھ
سوئی ہے کفن اوڑھے جو مزدور کی بیٹی
افلاس کے ہاتھوں پہ جلا رنگِ حنا دیکھ
کیا رنج کہ یوسف کا خریدار نہیں ہے
یہ شہر کوئی مصر کا بازار نہیں ہے
کیوں میری گرفتاری پہ ہنگامہ ہے ہر سو
وہ کون ہے جو تیرا گرفتار نہیں ہے
کس کس پہ عنایت نہ ہوئی تیری نظر کی
بس ایک مری سمت گہر بار نہیں ہے
ایک بے نام سی دیوار ہے باہر میرے
کون جانے جو نیا شہر ہے اندر میرے
فن کے پیمانے سبک حرف کے کوزے نازک
کیسے سمجھاؤں کہ کچھ دکھ ہیں سمندر میرے
کوئی موسم ہو مِری چھپ مِرا رنگ اپنا ہے
میری یہ وضع کہ بے وضع ہیں منظر میرے
جب مئے لالہ فام ہوتی ہے
مجھ کو توبہ حرام ہوتی ہے
خوبرو وہ ہے جس کی خو اچھی
شمع صورت حرام ہوتی ہے
یہ سنا ہے کہ برہمن سے بھی
شیخ کی رام رام ہوتی ہے