اس شہرِ صد آشوب میں اتری ہے قضا دیکھ
فرعون بنے بیٹھے ہیں مسند کے خدا دیکھ
بیٹھا ہے ہما رہزن و غدار کے سر پر
معصوم پرندے کی ہے معصوم ادا دیکھ
سوئی ہے کفن اوڑھے جو مزدور کی بیٹی
افلاس کے ہاتھوں پہ جلا رنگِ حنا دیکھ
کیا رنج کہ یوسف کا خریدار نہیں ہے
یہ شہر کوئی مصر کا بازار نہیں ہے
کیوں میری گرفتاری پہ ہنگامہ ہے ہر سو
وہ کون ہے جو تیرا گرفتار نہیں ہے
کس کس پہ عنایت نہ ہوئی تیری نظر کی
بس ایک مری سمت گہر بار نہیں ہے