اقتباس از مرثیہ ساقی نامہ
اپنے مےکش پہ کرم کی ہو نظر اے ساقی
جُھومتا اُٹھوں تو پہنچوں تِرے در اے ساقی
جام تارے ہوں، صراحی ہو قمر اے ساقی
ہوش باقی نہ رہے، تا بہ سحر اے ساقی
مرثیہ اہلِ مؤدت کو سُنانا ہے مجھے
عالم نشہ میں منبر پہ بھی جانا ہے مجھے
نہر پر کر لیا عباسؑ نے بڑھ کر قبضہ
ذرہ ذرہ نظر آنے لگا دریا، دریا
تشنہ کاموں کی مقدر کا ستارہ چمکا
جُھومتی آئی وہ مےخانہ کوثر سے گھٹا
حُسن تقدیر سے رِندوں کی بن آئی ساقی
اب ہے عباسؑ کے قبضہ میں ترائی ساقی
رقص کرتا ہوا شعلہ ہے کہ تلوار ہے یہ
ملک الموت کا حربہ ہے کہ تلوار ہے یہ
اک قیامت کا نظارہ ہے کہ تلوار ہے یہ
دستِ قدرت کا اشارہ ہے کہ تلوار ہے یہ
دستِ غازی میں یہ جس وقت مچل جاتی ہے
کُفر اور شرک کی بنیاد دہل جاتی ہے
یادِ عباسؑ سے اُٹھتا ہے جو آہوں کا دُھواں
آج شاعر کی نگاہوں میں ہے تاریک جہاں
دل میں ہے درد سو آنکھ سے آنسو ہیں رواں
تم سے قائم نہ ادا ہو گا مصائب کا بیاں
بن کے تصویر غم درد و الم آتا ہے
مرثیہ ختم کرو، اٹھو! علم آتا ہے
قائم جعفری
سید محمود علی
No comments:
Post a Comment