Wednesday, 24 November 2021

نظر ملاتے نہیں مسکرائے جاتے ہیں

 نظر ملاتے نہیں مسکرائے جاتے ہیں

بتاؤ یوں بھی کہیں دل ملائے جاتے ہیں

ہجومِ جلوۂ رنگیں کا مدعا معلوم

ہماری تابِ نظر آزمائے جاتے ہیں

حجاب ہو مگر ایسا بھی کیا حجاب آخر

جھلک دکھاتے نہیں منہ چھپائے جاتے ہیں

حدودِ کوچۂ جاناں میں آ گئے شاید

قدم قدم پہ قدم ڈگمگائے جاتے ہیں

یہ کس کا ذکر ہے اے تاج لب پہ شام و سحر

یہ کس کہ یاد میں آنسو بہائے جاتے ہیں


ریاست علی تاج

No comments:

Post a Comment