نظر ملاتے نہیں مسکرائے جاتے ہیں
بتاؤ یوں بھی کہیں دل ملائے جاتے ہیں
ہجومِ جلوۂ رنگیں کا مدعا معلوم
ہماری تابِ نظر آزمائے جاتے ہیں
حجاب ہو مگر ایسا بھی کیا حجاب آخر
جھلک دکھاتے نہیں منہ چھپائے جاتے ہیں
حدودِ کوچۂ جاناں میں آ گئے شاید
قدم قدم پہ قدم ڈگمگائے جاتے ہیں
یہ کس کا ذکر ہے اے تاج لب پہ شام و سحر
یہ کس کہ یاد میں آنسو بہائے جاتے ہیں
ریاست علی تاج
No comments:
Post a Comment