جھوٹ کی گرمئ بازار کہاں سے لاؤں
رقص بے معنی کی جھنکار کہاں سے لاؤں
ڈھونڈ کے حیلۂ تکذیب برائے انصاف
بے محابا سر دربار کہاں سے لاؤں
بے خبر عشق سے ہیں آج ریاکار شیوخ
جذبِ منصور سرِ دار کہاں سے لاؤں
بیچ کر چادر زہرا کو سجاتا فردوس
ریشمی مکر کی دستار کہاں سے لاؤں
موت کی گود میں ہے عارف و دانا کا وجود
دلربا فکرِ سحر کار کہاں سے لاؤں
میں وہ فنکار ہوں اخلاص ہے جس کا شہکار
مکر و تزویر کی گُفتار کہاں سے لاؤں
خانقاہوں میں بھی رائج ہے ہوس کی تدریس
با خدا! شیخِ نِگہ دار کہاں سے لاؤں
مکتبِ نو کا معلم ہے فرنگی بقال
بوذرؓ و خالدؓ و کرارؓ کہاں سے لاؤں
روح توحید کی قاتل ہے سیاسی تعلیم
سر فروشان وفادار کہاں سے لاؤں
خوب واقف ہوں حدیث مے و مینا سے مگر
عالمِ حشر میں دلدار کہاں سے لاؤں
سازِ فطرت پہ غزل خواں ہے شعور تنقید
کاغذی کاکل و رخسار کہاں سے لاؤں
شعلہ زن دامن گیتی ہے تو مضمون کوئی
جنسیت بخش طرحدار کہاں سے لاؤں
دل کا پیمانہ ہے زہرابِ الم سے لبریز
بلبل زمزمہ آثار کہاں سے لاؤں
تذکرے ہیں قد و گیسو کے بہر طور عزیز
مفلسی میں دلِ گلبار کہاں سے لاؤں
تشنگی صاحب نامہ کی بجھانے والو
آبرو باختہ شہکار کہاں سے لاؤں
عرصۂ دہر کا ہر ذرہ ہے آتش بہ کنار
رامش و رنگ کے اشعار کہاں سے لاؤں
جنتی ہونے کی مانا کہ سند بکتی ہے
گنج قارون کا انبار کہاں سے لاؤں
زیب تن وقت کا پیراہن شعلہ ہے ابھی
کیف انگیز میں افکار کہاں سے لاؤں
خیر آگاہ مِرا فکر ہے مصروف عمل
بحث و تکرار کی تلوار کہاں سے لاؤں
جان پڑ سکتی ہے ببیاک تنِ مردہ میں
مردِ فاروقؓ سا کردار کہاں سے لاؤں
بیباک بھوجپوری
No comments:
Post a Comment