تمنا اپنی ان پر آشکارا کر رہا ہوں میں
جو پہلے کر چکا ہوں اب دوبارا کر رہا ہوں میں
شکستِ آرزو، عرضِ تمنا، شوقِ لا حاصل
تِری خاطر تو یہ سب کچھ گوارا کر رہا ہوں میں
قفس میں جی بہلنے کے لیے وہ پھول رکھ آئے
ہجومِ یاس میں جن پر گزارا کر رہا ہوں میں
غرض اس چیز سے مجھ کو نہیں میری نہ جو ہو گی
یہ باعث ہے کہ دنیا سے کنارا کر رہا ہوں میں
میں کھل کر کہہ نہیں سکتا نیاز عشق کی باتیں
فقط ان کی طرف بس اک اشارا کر رہا ہوں میں
مِرے سر پر ہے باقی ایک سایہ میرے ماضی کا
سنبھل کر عصر حاضر کا نظارا کر رہا ہوں میں
فرید اک دن سہارے زندگی کے ٹوٹ جائیں گے
سبب یہ ہے کہ خود کو بے سہارا کر رہا ہوں میں
فرید پربتی
No comments:
Post a Comment