کچھ دنوں اور بھی کر لیں شبِ ہجراں فریاد
جب نہیں ہم تو کہاں اے دلِ نالاں! فریاد
تُو نے صیاد و قفس لا کے چمن میں رکھا
اب کریں کیا اسے شرمندۂ احساں فریاد
خشک ہو کے یہ چراتے نہیں او قاتل
کرتے ہیں زخم مِرے بہرِ نمکداں فریاد
ہم ہیں عاشق ہمیں فریاد و فغاں سے کیا کام
بُوالہوس کرتے ہیں ہو ہو کے پشیماں فریاد
اے سخن! آبروئے عشق بھی جاتی نہ رہے
زیر لب نالہ ہوا اور دل میں ہو پنہاں فریاد
سخن دہلوی
No comments:
Post a Comment