Monday, 1 November 2021

بام و در پر رینگتی پرچھائیاں

 بام و در پر رینگتی پرچھائیاں

مجھ سے اب مانوس ہیں تنہائیاں

اب سمندر بھی بہت سطحی ہوئے

اب رہیں ان میں نہ وہ گہرائیاں

خانۂ دل کو کرو آباد پھر

مجھ کو لوٹا دو وہی رعنائیاں

اک تھکن سی جسم پر طاری ہوئی

ٹوٹ کر گرنے لگیں پرچھائیاں


ندیم ماہر

No comments:

Post a Comment