فضائے چشم سے آخر غبار ختم ہوا
جہاں جہاں تھا مِرا انتظار، ختم ہوا
لہو کی سست روی نے بتا دیا ہے مجھے
سفر تمام ہوا، ریگزار ختم ہوا
میں فائدے میں بھی نقصان ڈھونڈ لیتا تھا
سو ہاتھ تنگ ہوا،۔ کاروبار ختم ہوا
ہوائے سرد کی جب خون تک رسائی ہوئی
رگوں میں برف جمی، انتشار ختم ہوا
کسی نگاہ کی ترشی نے کر دیا ہے کمال
سحر ہوئی نہیں سالف، خمار ختم ہوا
شاہجہان سالف
No comments:
Post a Comment