تیری صورت بھی کیا نظر آئی
دیر تک دوپہر مجھ پہ لہرائی
بڑھتا جاتا ہے کرب کا عالم
کاٹ کھاتی ہے روز تنہائی
تیری فرقت میں رات دن ہنسنا
جیسے مقتل میں بجتی شہنائی
سبز پریوں کی سرخ رانی نے
اک قبا آئینوں سے سِلوائی
پہلے پھولوں سے دوستی تھی مِری
پھر مِری زندگی میں تُو آئی
ایک گبھرو کے سینے میں چھپ کے
اپنی قسمت پہ گوری اِترائی
پھر میاں بخش کو پڑھا میں نے
پھر مجھے عشق کی سمجھ آئی
ثمر علی
ثمر محمد علی
No comments:
Post a Comment