Monday, 17 October 2022

یہ عشق اک امتحان تو لے میں پاس کر لوں

 یہ عشق اک امتحان تو لے میں پاس کر لوں

حدود ہوں تو حدود ساری کراس کر لوں

بہت کٹھن مسئلوں کی تحلیل بھی ہے ممکن

اگر میں اک مسئلے کے ٹکڑے پچاس کر لوں

تمام قدرت کھڑی ہے امکاں کے نظریے پر

قدم اٹھانے سے پہلے سکے سے ٹاس کر لوں

کسان کھیتوں سے گھر نہ جا پایا سوچتا تھا

اکٹھی پہلے میں عمر بھر کی کپاس کر لوں

یہ زندگی ممکنات کا اک ہرا شجر ہے

کوئی تو امید باندھ لوں کوئی آس کر لوں

شجاعتوں کے لگیں گے سب واقعات جھوٹے

میں خود کو گر مبتلائے خوف و ہراس کر لوں

سفر تو کٹ جائے گا مگر کیا سفر کٹے گا

سو اپنے ہمراہ چند پھولوں کی باس کر لوں

میں آنکھ میں منتقل کروں روشنی کو ذیشان

مگر یہ بہتر ہے دھوپ کا انعکاس کر لوں


ذیشان ساجد

No comments:

Post a Comment