ڈر لگتا ہے
سانحہ پشاور کے شہید طلباء کے نام
پھر وہی صبح کہ جس صبح نے مانگا آ کر
تنِ مجروح سے صد چاک لبادے کا خراج
پھر وہی شام کہ جس شام کے دامن میں ہے
میرے لفظوں کی اداسی، میری آنکھوں کا مزاج
پھر وہی رنگ کہ جس رنگ سے اوراقِ حیات
جب لہو رنگ ہوئے، آنکھ بھی کھل کر برسی
پھر وہی ابرِ عداوت کی گھٹا، ربِ دعا!
کیوں مِرے دیس کے بچوں پہ ہی اکثر برسی
میرے بچوں کی شہادت یہ گواہی دے گی
ہم نے شہ رگ کا لہو دے کے نکھاریں ہیں نجوم
میرے بچوں کی شہادت نے یہ پیغام دیا
تازہ تر ہم سے ہوئیں آج شجاعت کی رسوم
پھر مِرے دیس پہ اترا ہے یہ پُر نم موسم
در و دیوار پہ صدیوں کی تھکن طاری ہے
عرصۂ ظُلم کی ساعت کو تو صدیاں بیتیں
دھوپ کے دشت میں وحشت کا سفر جاری ہے
میں نے دیکھے ہیں کئی شمس و قمر آبلہ پا
میری آنکھوں نے سمیٹا ہے دُھواں خوابوں کا
میرے بچوں کے وہ بکھرے ہوئے لاشے چُننے
قافلہ اُترا مِرے شہر پہ مہتابوں کا
حوصلہ لاؤں کہاں سے کہ وہ مائیں دیکھوں
درد اتنا ہے کہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتا ہوں
آنچ اتنی ہے کہ یخ بستہ نفس بھی پگھلا
لفظ ایسے ہیں کہ میں سہہ بھی نہیں سکتا ہوں
شامِ وحشت کی طوالت سے بھی خوف آتا ہے
اب قلم، کاپی، کتابوں سے بھی ڈر لگتا ہے
میں نے قبروں کی رداؤں پہ بھی دیکھا ہے انہیں
ماں! مجھے سرخ گلابوں سے بھی ڈر لگتا ہے
بلال اعظم
No comments:
Post a Comment