Monday 15 July 2024

علم اٹھا کر وہ حق نشانوں سے آ رہے ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


علم اٹھا کر وہ حق نشانوں سے آ رہے ہیں 

حسینؑ جگ میں کئی زمانوں سے آ رہے ہیں 

ہدف یزیدوں کا آج بھی ہیں رسول زادے 

کہ تیر اب بھی انہی کمانوں سے آ رہے ہیں 

ابھی بھی بازار شام ویسا ہی ظلم خُو ہے 

ابھی بھی پتھر انہی مکانوں سے آ رہے ہیں 

عداوتوں کی روایتیں ہیں ہنوز باقی 

ازل کے دشمن ابد گھرانوں سے آ رہے ہیں 

الٹ کے رکھ دی بساط زینبؑ نے قاتلوں کی 

شکست کھا کے وہ داستانوں سے آ رہے ہیں 

یزیدیت کی انانیت کو شکست دے کر 

وفا کے پیکر علم، نشانوں، سے آ رہے ہیں 

اتر رہے ہیں ضمیر بن کر دلوں کے اندر 

پیام آل عبا، سنانوں سے آ رہے ہیں 

نبیؐ کی مسند پہ آ کے بیٹھے ہیں دیں کے دشمن 

جو دیں کے وارث ہیں تازیانوں سے آ رہے ہیں 

تڑپ رہی ہے لحد میں کم سن کی روح جیسے 

لہو کے قطرے ابھی بھی کانوں سے آ رہے ہیں 

یہ نوحہ خوانی تِری عطا ہے بتولؑ زادی 

یہ حرف سارے تِرے خزانوں سے آ رہے ہیں 

نفس نفس میں رواں دواں ہیں حسینؑ، حیدر

حسینؑ ابھی وقت کی زبانوں سے آ رہے ہیں


حیدر سلیم

No comments:

Post a Comment