عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
علم اٹھا کر وہ حق نشانوں سے آ رہے ہیں
حسینؑ جگ میں کئی زمانوں سے آ رہے ہیں
ہدف یزیدوں کا آج بھی ہیں رسول زادے
کہ تیر اب بھی انہی کمانوں سے آ رہے ہیں
ابھی بھی بازار شام ویسا ہی ظلم خُو ہے
ابھی بھی پتھر انہی مکانوں سے آ رہے ہیں
عداوتوں کی روایتیں ہیں ہنوز باقی
ازل کے دشمن ابد گھرانوں سے آ رہے ہیں
الٹ کے رکھ دی بساط زینبؑ نے قاتلوں کی
شکست کھا کے وہ داستانوں سے آ رہے ہیں
یزیدیت کی انانیت کو شکست دے کر
وفا کے پیکر علم، نشانوں، سے آ رہے ہیں
اتر رہے ہیں ضمیر بن کر دلوں کے اندر
پیام آل عبا، سنانوں سے آ رہے ہیں
نبیؐ کی مسند پہ آ کے بیٹھے ہیں دیں کے دشمن
جو دیں کے وارث ہیں تازیانوں سے آ رہے ہیں
تڑپ رہی ہے لحد میں کم سن کی روح جیسے
لہو کے قطرے ابھی بھی کانوں سے آ رہے ہیں
یہ نوحہ خوانی تِری عطا ہے بتولؑ زادی
یہ حرف سارے تِرے خزانوں سے آ رہے ہیں
نفس نفس میں رواں دواں ہیں حسینؑ، حیدر
حسینؑ ابھی وقت کی زبانوں سے آ رہے ہیں
حیدر سلیم
No comments:
Post a Comment