عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہو رہی ہے پھر لہو میں ابتدائے کربلا
سر سے پا تک کچھ نہیں ہے ماسِوائے کربلا
سامنے آتا ہے پانی تو میں ہٹ جاتا ہوں دُور
پیاس کو محفوظ رکھتا ہوں برائے کربلا
زندگی ہی زندگی تھا نوکِ نیزہ پر وہ سر
روشنی ہی روشنی تھی وہ ہوائے کربلا
تب سے یہ ہونا نہ ہونا اِک برابر ہے ہمیں
کربلا میں کیا ہوا تھا اے خدائے کربلا
تین دن کی پیاس جانے ختم پر کب آئے گی
جانے کب ہو گی زمیں پر انتہائے کربلا
وہ چراغِ شامِ عاشورہ ابد کے طاق میں
وہ امانت دار خیمے، وہ سرائے کربلا
لوگ کیسے ہوں گے، کیسے کرتے ہوں گے سوگ
جب تلک رکھی نہیں ہو گی بِنائے کربلا
کہنے سُننے کو یہ دو مضموں ہی باقی رہ گئے
اِک سکوتِ کربلا ہے، اِک صدائے کربلا
شاہین عباس
No comments:
Post a Comment