عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اوجِ امکانِ بشر کا سلسلہ ہے کربلا
عبدیت کی شانِ تسلیم و رضا ہے کربلا
رُوح ہو بیمار تو خاکِ شفا ہے کربلا
خالقِ اکبر کا زندہ معجزہ ہے کربلا
غمگساری، دوست داری ، بیقراری کے لیے
کربلا ہے، کربلا ہے، کربلا ہے کربلا
عشق کی تاریخ سے آواز آتی ہے یہی
سیکھنا چاہو تو تہذیب عزا ہے کربلا
بانیانِ ظلم مٹ سکتا نہیں ذکرِ حسینؑ
جبر کے ماحول میں تازہ ہوا ہے کربلا
گردشِ ایام سے محفوظ رکھنے کے لیے
ہیں بہتر زخم اور دل کی دوا ہے کربلا
زائرینِ روضۂ شبیرؑ ہیں اس سوچ میں
خُلد ہے یا خُلد کا اک راستہ ہے کربلا
نوکِ نیزہ سے جہاں ہر جیت کا اعلان ہو
ربِ کعبہ کی قسم وہ معرکہ ہے کربلا
تسنیم عابدی
No comments:
Post a Comment