نکلے تھے آج گھر سے بڑے اہتمام سے
دو چار گام بھی نہ بڑھے راہِ عام سے
یہ کہہ کے ہم نے جام لبوں سے لگا لیا
جتنی حرام ہو وہ چھلک جائے جام سے
کل جن کو ہم سمجھتے تھے یارانِ با صفا
دل کانپ کانپ اُٹھتا ہے آج ان کے نام سے
ان کو بھی آہِ نیم شبی نے بُجھا دیا
جو صبح کے چراغ جلائے تھے شام سے
ناطق خدا ہی جانے کہ ہنگامِ فصلِ گُل
کس سمت کی ہوائیں چلیں کس مقام سے
ناطق مالوی
No comments:
Post a Comment