Tuesday 3 September 2024

دل غم سے بھی بیزار ہے معلوم نہیں کیوں

 دل غم سے بھی بیزار ہے معلوم نہیں کیوں

یہ عیش بھی اب یار ہے معلوم نہیں کیوں

عالم ہمہ دلدار ہے معلوم نہیں کیوں؟

جو غم ہے غم یار ہے معلوم نہیں کیوں

اب حسن بھی کچھ سامنے آنے میں ہے محتاط

اب عشق بھی خوددار ہے معلوم نہیں کیوں

وہ عشق جو ہر جلوۂ رنگیں پہ فدا ہے

خود اپنا طلب گار ہے معلوم نہیں کیوں

کچھ روز سے وہ کیف جو اک گوشہ نشیں تھا

رسوا سر بازار ہے معلوم نہیں کیوں


کیف مرادآبادی

No comments:

Post a Comment