دل غم سے بھی بیزار ہے معلوم نہیں کیوں
یہ عیش بھی اب یار ہے معلوم نہیں کیوں
عالم ہمہ دلدار ہے معلوم نہیں کیوں؟
جو غم ہے غم یار ہے معلوم نہیں کیوں
اب حسن بھی کچھ سامنے آنے میں ہے محتاط
اب عشق بھی خوددار ہے معلوم نہیں کیوں
وہ عشق جو ہر جلوۂ رنگیں پہ فدا ہے
خود اپنا طلب گار ہے معلوم نہیں کیوں
کچھ روز سے وہ کیف جو اک گوشہ نشیں تھا
رسوا سر بازار ہے معلوم نہیں کیوں
کیف مرادآبادی
No comments:
Post a Comment