خُدا کو دل سے بھُلا دوں بُتوں سے پیار کروں
بضد ہیں لوگ کہ یہ رنگ اختیار کروں
ہیں فاش مجھ پہ غیاب و حضور کے اسرار
یہ راز، آؤ کہ تم پر بھی آشکار کروں
قدم قدم پہ تو اک جلوہ گاہ ہے اے دوست
کہاں کہاں تِرے مستوں کو ہوشیار کروں
ٹھہر ٹھہر کے رہِ شوق میں بھلا کب تک
تمہارے سُست خراموں کا انتظار کروں
خود اپنے دل پہ ذرا ہاتھ رکھ کے تم کہہ دو
تمہارے وعدۂ فردا کا اعتبار کروں؟
جنُونِ شوق نے رکھا ہی کیا ہے اے آصف
کہاں سے جیب و گریباں کا تار تار کروں
سلیمان آصف
No comments:
Post a Comment