Tuesday 10 September 2024

ابد آثار ہے تیری خدائی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ابد آثار ہے تیری خدائی

ابد آثار ہیں مالک

تِری قدرتِ کامل کے کرشموں سے

جلوہ آرائی کرتے مناظر

یہ ایٹم سا اک نا چیز ذرہ

اور اس ذرے میں کائنات کے پہلو بہ پہلو ایک مرکز

جو درجنوں اجزاء سے مرکب ہے

اور اس مرکز کے بہر طرف

الیکٹران اور اس جیسے کتنے ہی

غیر مرئی اجزاء یوں گردش کر رہے ہیں

کہ جیسے نظامِ شمسی کے سیارے

سورج کے گرد

اور ایک خلیہ ہے

جو جاندار اشیاء کے جسم کی اکائی ہے

مگر پوری خدائی ہے

مگر کرداروں کا لامحدود سلسلہ ہے

بتایا جا رہا ہے

ہزاروں کیریکٹر ہیں

جو اک خلیۂ ناچیز سے منسلک ییں

اور وراثت اگلی نسلوں تک منتقل کر رہے ہیں

ابد آثار ہیں مالک

یہ سب مظاہر

یہ اک زنجیرِ کشش میں باہم جُڑے اجسام

یہ زندگی، یہ موت

یہ خواہشات کے بیکراں سمندر

کہ جن میں اُٹھتے مد و جزر

ہنگامہ پرور ہیں ازل سے

خدایا! ان گنت کہکشاؤں اور ستاروں کے خدا

میرے لفظوں کو حُرمت کر دے عطا

اگر کچھ بھی نہیں بے معنی کائنات میں تیری

اگر میں بھی اکائی ہوں

کروڑوں خلیات اور ایٹموں سے

اگر مجھ کو بھی بنایا گیا ہے

یقیناً کوئی مقصد بھی رکھا گیا ہے

مجھے تفہمِ تخیلقِ جسم و جاں دے

ابد آثار دُنیائیں ہیں تیری

مجھے بھی شعورِ زندگی عطا کر

بخش دے اشیاء کی وجہ کُن کا ادراک

خدایا

خدایا

خدایا

سراپا التماس و دُعا ہوں

اشرفِ تخلیق ہوں تو کیونکر

خسارے میں رہا ہوں

مجھے رازِ درونِ کُن عطا کر

مجھے جو لوگ خاکِ راہ یا گردِ سفر کہتے نہیں تھکتے

انہیں بتلاؤں

کہ حرف و صوت و آہنگ کا تقدس کس کو کہتے ہیں

جو انسانوں کی بقاء سے جُڑا ہے

رشتۂ محبت

اسے لفظوں کا لبادہ کیسے دینا ہے

الہیٰ! سر بسر عجز ہوں

سراپا التجا ہوں

بشر ہوں

اور شعورِ راستی مانگتا ہوں


شاہ روم ولی

ولی شاہ

No comments:

Post a Comment