بے سمت یہ سفر ہے ذرا دیکھ کر چلو
انجان رہگزر ہے ذرا دیکھ کر چلو
گزرا ادھر سے جو بھی وہ پتھر میں ڈھل گیا
جادو کا یہ نگر ہے ذرا دیکھ کر چلو
پتھر پگھل رہے ہیں تمازت سے دھوپ کی
یہ دشت بے شجر ہے ذرا دیکھ کر چلو
کرنے لگے ہیں رقص بگولے ہواؤں میں
طوفان تیز تر ہے ذرا دیکھ کر چلو
دامن جھلس نہ جائے چمن زار میں کہیں
ہر پھول اک شرر ہے ذرا دیکھ کر چلو
کھلنے لگے ہیں پھول دل زخم زخم کے
منزل قریب تر ہے ذرا دیکھ کر چلو
شمس فریدی
No comments:
Post a Comment