Friday 4 October 2024

بے سمت یہ سفر ہے ذرا دیکھ کر چلو

 بے سمت یہ سفر ہے ذرا دیکھ کر چلو

انجان رہگزر ہے ذرا دیکھ کر چلو

گزرا ادھر سے جو بھی وہ پتھر میں ڈھل گیا

جادو کا یہ نگر ہے ذرا دیکھ کر چلو

پتھر پگھل رہے ہیں تمازت سے دھوپ کی

یہ دشت بے شجر ہے ذرا دیکھ کر چلو

کرنے لگے ہیں رقص بگولے ہواؤں میں

طوفان تیز تر ہے ذرا دیکھ کر چلو

دامن جھلس نہ جائے چمن زار میں کہیں

ہر پھول اک شرر ہے ذرا دیکھ کر چلو

کھلنے لگے ہیں پھول دل زخم زخم کے

منزل قریب تر ہے ذرا دیکھ کر چلو


شمس فریدی

No comments:

Post a Comment