مرنا ہمیں پسند نہیں
ایک جوتے کے قد جتنا پیٹ بھرتے
پہاڑ دھنس گئے
ندیاں سُوکھ گئیں
جنگلات پر گاؤوں کا قبضہ ہو گیا
دہاڑنے اور گریہ وزاری کے دن
اُڑ کر پہنچ گئے بادلوں میں
بانسری میں ہوا پھُونکوں، اتنی بھی
نہیں بچی پھیپھڑوں میں ہوا
اُس وقت چھوڑا اپنا گاؤں
اور ہوئے مسافر
بیگانے ملک کے
کسی پاگل شہر میں
کوئی نہیں تھا
ہمارا ہاتھ پکڑنے والا
شہر میں تھے ہم معمولی ذات کے
ہم گہری نہ کر لیں اپنی جنگلاتی جڑیں شہر میں
اس ڈر کے ستائے لوگوں نے
ہمیں پیر رکھنے کی زمین بھی نہ دی
پلاسٹک کے کمرے میں
ٹھنڈ میں ٹھٹھرتے رہے
گرمی کے دنوں میں تپتے رہے
بارش میں بھیگتے رہے
مگر ہمیں نہیں ملی
ہمارے ہی بنائے بنگلوں میں پناہ
گلی کے چوراہے پر
بھیڑ بکری کی طرح
لگائی جاتی رہی ہماری بولیاں
اور ہم خریدے جاتے رہے دو چار پیسوں میں
پیٹھ کے پیچھے
ماما‘ اور ’لنگوٹیا‘ کے سنائی دیتے طعنے’
زہریلے بِچھّو کے ڈنک جیسے
اور اس کی لہر چڑھ جائے چوٹی تک
ہر روز
کُتے کی طرح بھگائے جانے کے عوض
لگتا ہے کہ چھوڑ دیں یہ دوزخ
اور رکھ دیں سر
گاؤں کی گود میں
مگر ہمیں ڈسنے
گاؤں میں پھپھکار رہا ہے
بھُک مری کا سانپ
اور
مرنا ہمیں پسند نہیں
گجراتی شاعری؛ وجے سنگھ پارگی
اردو ترجمہ؛ قمر تبریز
No comments:
Post a Comment