جوان نسل میں بڑھتا ہُوا عذاب ہوں میں
میری صدا میں بغاوت ہے، انقلاب ہوں میں
میرا قصور ہے میں ایک غریب لڑکا ہوں
نہیں تو سارے زمانے سے لاجواب ہوں میں
میں ایک سوال ہوں اُلجھا ہوا زمانے کا
ہر اک سوال کا چُبھتا ہوا جواب ہوں میں
مٹا سکی نہ مجھے تیرگی زمانے کی
زمیں کی کوکھ پہ مانندِ آفتاب ہوں میں
میں نفرتوں کا ذہن لے کے مُسکراتا ہوں
میری ادا پہ نہ جاؤ، بہت خراب ہوں میں
ہے میرے چہرے پہ مکاریاں زمانے کی
مجھے تو دیکھ کے پڑھ لے کُھلی کتاب ہوں میں
غموں کی آگ سے میں کھیل کر جوان ہُوا
بھری بہار میں جلتا ہُوا شباب ہوں میں
مظہر رحمٰن
No comments:
Post a Comment