Sunday 6 October 2024

ہم اپنی تلخ یادوں کو بھی دفنانے نہیں جاتے

 ہم اپنی تلخ یادوں کو بھی دفنانے نہیں جاتے

غرض اب ہم کہیں بھی دل کو بہلانے نہیں جاتے

تعارف از سرِ نو ان سے میرا، کیا قیامت ہے؟

پُرانے یار بھی اب ان سے پہچانے نہیں جاتے

میں ہوں اک لمحۂ موجود سینے سے لگا مجھ کو

کہ ماضی میں دلِ ناداں کو اُلجھانے نہیں جاتے

نہ کر کچھ رنج کہ حالات بن جاتے ہیں ایسے ہی

کسی کے سر پہ کچھ الزام ٹھہرانے نہیں جاتے

یہ میرا غم بھی تو اپنی مِری تخلیق ہے، ورنہ

کسی کے دل میں خود اُٹھ کر تو ویرانے نہیں جاتے

اسے لے کر مِرے دل میں رہے وہم و گُماں برسوں

جو آئے تھے خدا بن کر، خدا مانے نہیں جاتے

بنا مانگے بھی مل جاتے ہیں رنج و غم زمانے سے

سمجھ لیتے اگر یہ ہم تو پچھتانے نہیں جاتے


منموہن عالم

No comments:

Post a Comment