ہم اپنی تلخ یادوں کو بھی دفنانے نہیں جاتے
غرض اب ہم کہیں بھی دل کو بہلانے نہیں جاتے
تعارف از سرِ نو ان سے میرا، کیا قیامت ہے؟
پُرانے یار بھی اب ان سے پہچانے نہیں جاتے
میں ہوں اک لمحۂ موجود سینے سے لگا مجھ کو
کہ ماضی میں دلِ ناداں کو اُلجھانے نہیں جاتے
نہ کر کچھ رنج کہ حالات بن جاتے ہیں ایسے ہی
کسی کے سر پہ کچھ الزام ٹھہرانے نہیں جاتے
یہ میرا غم بھی تو اپنی مِری تخلیق ہے، ورنہ
کسی کے دل میں خود اُٹھ کر تو ویرانے نہیں جاتے
اسے لے کر مِرے دل میں رہے وہم و گُماں برسوں
جو آئے تھے خدا بن کر، خدا مانے نہیں جاتے
بنا مانگے بھی مل جاتے ہیں رنج و غم زمانے سے
سمجھ لیتے اگر یہ ہم تو پچھتانے نہیں جاتے
منموہن عالم
No comments:
Post a Comment