میرا کردار ناصحانہ تھا
یوں بھی دشمن مِرا زمانہ تھا
آئے مہماں تو بھر گئے برتن
جب کہ گھر میں نہ آب و دانہ تھا
یہ تمازت کبھی نہ دیکھی تھی
سر پہ والد کا شامیانہ تھا
ایک چڑیا نے آ کے دستک دی
کل یہاں میرا آشیانہ تھا
میرے رُخ پر کسی کی زُلفیں تھیں
سائباں تھا کہ شامیانہ تھا
تجھ سے مل کر ذرا پرکھ تو لوں
وہ تعارف تو غائبانہ تھا
پیٹھ پر گھاؤ دے گیا راشد
اس سے رشتہ تو دوستانہ تھا
راشد عارفی
No comments:
Post a Comment