دھوپ کی یورش نہ کیوں ہو بام و در کے سامنے
کاٹ ڈالا اس نے برگد تھا جو تھا گھر کے سامنے
آبلہ پائی سے ان کی پوچھیے حالِ سفر
ریت ہے تپتی ہوئی جن کی نظر کے سامنے
ہمسفر کو ہمسفر سے آس جو تھی، اٹھ گئی
کارواں لُوٹا گیا جب راہبر کے سامنے
قدر و قیمت کے تعین کا نہیں جن کو شعور
کانچ بھی رکھتے ہیں وہ لا کر گُہر کے سامنے
اب وہ مجھ سے بات کرتے ہیں بزرگوں کی طرح
طفلِ مکتب کل جو تھے میری نظر کے سامنے
جھپکیاں آنکھوں نے لیں تو میں نے ہو کر محوِ خواب
خود کو پایا خار زارِ پُر خطر کے سامنے
چشمِ نم تر دامنی سے کر گئی نادم مجھے
دردِ دل رسوا ہوا جب دردِ سر کے سامنے
نادم بلخی
No comments:
Post a Comment