دل اتنا مطمئن ہے صیاد و باغباں سے
جیسے قفس کی دنیا بہتر ہو آشیاں سے
دل خون ہو رہا ہے انجامِ گلستاں سے
پھولوں کو تک رہا ہوں رہ رہ کے آشیاں سے
جو ان کو ڈھونڈ لائیں مہتاب و کہشاں سے
ایسی رسا نگاہیں لائے کوئی کہاں سے
آئی صدائے تحسیں ہر ذرے کی زباں سے
کیا کہہ دیا ہمارے سجدوں نے آستاں سے
چشمِ کلیم جھپکی اک برقِ بے اماں سے
اپنا بھرم بھی کھویا جلوؤں کے امتحاں سے
یہ راز کب نہاں ہے قدرت کے رازداں سے
منزل وہیں تھی نیر اٹھے قدم جہاں سے
مصطفیٰ حسین نیر
No comments:
Post a Comment