Monday, 2 December 2024

تنہائی کی آغوش میں تھا صبح سے پہلے

 تنہائی کی آغوش میں تھا صُبح سے پہلے

ملتی رہی اُلفت کی سزا صبح سے پہلے

شاید مِرے لفظوں پہ ترس آئے اسے اب

روتے ہوئے مانگی ہے دُعا صبح سے پہلے

سایہ بھی مِرا کھو گیا تاریکئ شب میں

ظُلمت کا اثر ایسا رہا صبح سے پہلے

جب رات میں سو جاتی ہے یہ ساری خُدائی

دیتا ہے مجھے کون صدا صبح سے پہلے

شاید کہ مقدّر میں نہ ہو کل کا یہ سُورج

ہو جائے ہر اک قرض ادا صبح سے پہلے

شوقی! تجھے مل جائیں گے شیخ اور برہمن

اس شہر کے مےخانے میں آ صبح سے پہلے


محمد عامر شوقی

No comments:

Post a Comment