Monday, 2 December 2024

سورج کے ڈوبنے سے سمندر اداس ہے

 سورج کے ڈوبنے سے سمندر اداس ہے

وہ جو نہیں تو شام کا منظر اداس ہے

زخمی ہیں پاؤں پاؤں تو رستہ لہو لہو

ٹھوکر لگا کے راہ کا پتھر اداس ہے

چادر سی اک لہو کی تنی ہے نگاہ میں

ڈوبا ہوا لہو میں ہر اک در اداس ہے

پت جھڑ کے بعد اداس اور تنہا کھڑا ہے پیڑ

دھرتی پہ سوکھے پتوں کا بستر اداس ہے

آنکھوں میں پھیر دی گئیں جلتی سلائیاں

زِنداں کی کوٹھڑی کا ہر اک در اداس ہے

ہے چاند رات، رات کی رانی مہک اٹھی

حسنٰی اداس دل ہے تو منظر اداس ہے


حسنٰی سرور

No comments:

Post a Comment