اک خلش سی تھی نہ کہنے کی نہ سمجھانے کی
اب وہی ہو گئی سرخی کسی افسانے کی
لوگ سمجھاتے رہے راہ خرد نے رد کی
گرمئ شوق نہ کم ہو سکی دیوانے کی
آپ پر جرأتِ اقرار سے گزری ہے
میں سمجھتا ہوں نہ کوشش کریں سمجھانے کی
آپ نے میری تمنا کو کہاں تک سمجھا
کہہ گئی آج ادا آپ کے شرمانے کی
میکشوں نے حرم و دیر کا احساں نہ لیا
آبرو رہ گئی اس بات پہ مے خانے کی
تھا کبھی رشکِ جناں جو کہ چمن زاروں میں
وسعتیں دیکھ رہا ہوں اسی ویرانے کی
سعید سہروردی
No comments:
Post a Comment