Thursday, 8 May 2025

اک خلش سی تھی نہ کہنے کی نہ سمجھانے کی

 اک خلش سی تھی نہ کہنے کی نہ سمجھانے کی

اب وہی ہو گئی سرخی کسی افسانے کی

لوگ سمجھاتے رہے راہ خرد نے رد کی

گرمئ شوق نہ کم ہو سکی دیوانے کی

آپ پر جرأتِ اقرار سے گزری ہے

میں سمجھتا ہوں نہ کوشش کریں سمجھانے کی

آپ نے میری تمنا کو کہاں تک سمجھا

کہہ گئی آج ادا آپ کے شرمانے کی

میکشوں نے حرم و دیر کا احساں نہ لیا

آبرو رہ گئی اس بات پہ مے خانے کی

تھا کبھی رشکِ جناں جو کہ چمن زاروں میں

وسعتیں دیکھ رہا ہوں اسی ویرانے کی


سعید سہروردی

No comments:

Post a Comment