بس یہ کام یہ نادان نہیں کرتے ہیں
آدمی اپنے کو انسان نہیں کرتے ہیں
جان دے کر ہمیں یہ بات سمجھ میں آئی
جان ہر شخص پہ قربان نہیں کرتے ہیں
سر جھکانے کی کسی در پہ ضرورت کیا ہے
اس قدر غیر پہ احسان نہیں کرتے ہیں
جھوٹ کہتے ہو کہ تم کو نہیں ہے کوئی غم
اشک کیا بات کا اعلان نہیں کرتے ہیں
جس طرف سارا زمانہ ہے ادھر کیوں جائیں
ہم سفر اس لیے آسان نہیں کرتے ہیں
پیرہن لمحے علی سب کے بدل دیتے ہیں
بس رفو چاک گریبان نہیں کرتے ہیں
علی کاظم
No comments:
Post a Comment