Saturday, 3 May 2025

دشمن مرے پیچھے ہے تو دریا مرے آگے

 دشمن مِرے پیچھے ہے تو دریا مِرے آگے

اب کوئی بچا ہی نہیں رستہ مرے آگے

توہین نہ کر تو مِری غربت کی سر عام

مت پھینک حقارت سے یہ سکہ مرے آگے

میں سچ کا طرفدار تھا وہ جھوٹ کا حامی

تا دیر بھلا کیسے ٹھہرتا مرے آگے

گھیرے ہیں ابھی مجھ کو زمانے کے مسائل

مت چھیڑ ابھی عشق کا قصہ مرے آگے

احسان کیا جس پہ اسی نے مجھے لوٹا

لو آ گیا نیکی کا نتیجہ مرے آگے

اے وقت کے منصف یہ تجھے زیب نہیں ہے

مت پڑھ کسی ظالم کا قصیدہ مرے آگے

دنیائے محبت کا میں درویش ہوں یارو

اک روز جھکے گا یہ زمانہ مرے آگے

تسلیم کروں کیسے بھلا اس کی بڑائی

تابش تو ہوا ہے ابھی پیدا مرے آگے


تابش ریحان

No comments:

Post a Comment