دینِ خانقاہی
ہر طرف خیمے لگے ہیں دور تک بازار ہے
یہ نمائش ہے کوئی میلہ ہے یا تہوار ہے
کوئی بارات اس جگہ اتری ہے با صد کر و فر
میں یہ سمجھا شامیانوں کی قطاریں دیکھ کر
یہ نفیری کی صدائيں یا کٹوروں کی کھنک
نیم وا برقعے نگاہوں پر فسوں کرتے ہوئے
شوق نظارا کو ہر لخط فووں کرتے ہوئے
ہے یہ تقریب عقدت عرس ہے اک پیر کا
کام کرتی ہے یہان کی خاک بھی اکثیر کا
اک طوائف گا رہی ہے سامنے درگاہ کے
کیا مزے ہیں خوب حضرت سہاگن شاہ کے
ساز پر کچھ چھوکرے قوالیاں گاتے ہوئے
گٹکری لیتے ہوئے ہاتھوں کو پچکاتے ہوئے
رقص فرمانے لگے کچھ صاحبان وجد و حال
یہ کرامت شیخ کی ہے یا ہے نغمے کا کمال
عورتوں کی بھیڑ میں نظارہ ٹھوکر کھائے ہے
اس ہجوم رنگ و بو میں کب خدا یاد آئے ہے
مقبرے کی جالیوں میں عرضیاں لٹکی ہوئيں
یہ وہ منزل ہے جہاں نیکیاں بھٹکی ہوئيں
ان میں لکھا ہے ہماری جھولیاں بھر دے
دردِ دل سن لیجیے مشکل کشائی کیجیے
پھول ہٹتے ہیں کہیں اور دیگ لٹتی ہے کہیں
دل مچلتا ہے کہیں اور سانس گھٹتی ہے کہیں
یہ چراغوں کی قطاریں جگمگاتے بام و در
جس طرف بھی دیکھیئے سامان تفریح نظر
چادریں چڑھتی ہوئيں ڈھولک بھی ہے بجتی ہوئی
یہ مجاور ہیں جو پوجا کر رہے ہیں قبر کی
کوئی سجدے میں جھکا ہے کوئی مصروفِ طواف
تھام رکھا ہے کسی نے دونوں ہاتھوں سے غلاف
رو رہا ہے کوئی چوکھٹ ہی پہ سر رکھے ہوئے
ہیں کسی کے ہاتھ بہرِ التجا اٹھتے ہوئے
دیکھتا ہی رہ تماشائی زباں سے کچھ نہ بول
چادروں کی دھجیاں بکتی ہیں یاں سونے کے مول
دھن برستا ہے یہاں، چاندی اگلتی ہے زمین
آخرت کی یاد اس جا پاؤں رکھ سکتی نہیں
زائروں کے خود مجاور ہی جھکا دیتے ہیں سر
مور کے پنکھوں کے سائے میں کلاوے باندھ کر
ہے یہی تعلیم تعلیم نبیﷺ فرمان قرآن کی
ہر ایک بدعت ضلالت شرک ہے ظلم عظیم
مدعی توحید کے اور شرک سے یہ ساز باز
ایک طرف قبروں پہ سجدے دوسری جانب جائے نماز
تا بہ کے یہ کھیل دنیا کو دکھایا جائے گا
مضحکہ توحید کا کب تک اڑایا جائے گا
ماہر القادری
No comments:
Post a Comment