Tuesday, 16 February 2021

شور کیسا ہے مرے دل کے خرابے سے اٹھا

 شور کیسا ہے مِرے دل کے خرابے سے اٹھا

شہر جیسے کہ کوئی اپنے ہی ملبے سے اٹھا

یا اٹھا دشت میں دیوانے سے بار فرقت

یا تِرے شہر میں اک چاہنے والے سے اٹھا

یا مِری خاک کو مل جانے دے اس مٹی میں

یا مجھے خون کی للکار پہ کوچے سے اٹھا

تُو مِرے پاس نہیں ہوتا یہ سچ ہے، لیکن

تِری آواز پر ہر صبح میں سوتے سے اٹھا

چاک پہ رکھا ہے تو لمس بھی دے ہاتھوں کا

میری پہچان تعطل کے اندھیرے سے اٹھا

دل کہ ہے خون کا اک قطرہ مگر دنیا میں

جب اٹھا حشر اسی ایک علاقے سے اٹھا

یہ اجالوں کی عنایت ہے کہ بندہ اشہر

اپنے سائے پہ گِرا اپنے ہی سائے سے اٹھا


اشہر ہاشمی

No comments:

Post a Comment