Wednesday, 7 September 2022

عشق کے جاں نثار جیتے ہیں

 عشق کے جاں نثار جیتے ہیں

بعد مرنے کے یار جیتے ہیں

زہرِ حسرت چشیدگانِ فراق

ہیں موؤں میں ہزار جیتے ہیں

دشمنوں پر تو تیغ یار نہ کھینچ

ابھی تو دوست دار جیتے ہیں

تُو جہاں جائے مثل آبِ حیات

مُردے اب ایک بار جیتے ہیں

ایک دن داؤ ہے ہمارا بھی

یہاں بازی تو یار جیتے ہیں

بِن اجل کوئی مر نہیں سکتا

جی کو ہم مار مار جیتے ہیں

غمِ ہجراں کی کچھ نہیں پوچھ رضا

شکرِ پروردگار، جیتے ہیں


رضا عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment